Thursday 20 May 2021

ایک درویش اور لومڑی

ایک درویش نے ایک لنگڑی



  لومڑی کو دیکھا اور سوچنے لگا کے بچاری کیسے کھاتی ہو گی اچانک کیا دیکھتا ہے کے ایک شیر گیدڑ کو پکڑ کر لے آیا اور اس کو جتنا کھاناتھا کھا لیا اور جو بچ گیا وہ لومڑی نے کھا لیا دوسرے دن پھر اللہ تعالی نے اس کو ایسے ہی روزی دی۔ درویش گر گیا اور سوچا کہ جب اللہ تعالی ایسی مخلوق کو اتنے حیرت انگیز طریقے سے روزی پہنچا دیتا ہے تو مجھے کیا ضرورت پڑے محنت مشقت کرنے کی۔ چیونٹی کی طرح گھر میں بیٹھ گیا اور کہنے لگا کہ ہاتھی کون سا اپنی طاقت کے بل بوتے پہ کھاتا ہے کے کئی دن بیٹھا رہا بڑے مزے سے کہ غیب سے روزی آئے گی مگر کسی نہ اپنے رشتہ دار نے پوچھا نہ کسی بیگانے نے ستار کی تاروں کی طرح رگیں ہڈیاں اور کھال ہی رہ گئی جب صبر کے بندھن ٹوٹ گئے تو محراب مسجد  سے آواز آئی اے مکار جا لنگڑی لومڑی بڑھنے کے بجائے چیرنے پھاڑنے والے شیر بن۔ شیر کی طرح کسی کو اپنا بچاکچاکھلا۔ کسی کا بچاکچا نہ کھا۔ شیروں کی طرح جسم رکھنے والے اگر لومڑی کی طرح پڑا رہے گا تو ان سے کتا بہتر ہے دوسروں پر امید رکھنے کے بجائے خود کما اور دوسروں کو کھلا۔ مرد بن ہجڑا مت بن جو دوسروں کی کمائی کھاتے ہیں۔ خدا اہل کرم پر ہی کرم فرماتا ہے یہ باتیں کم ہمت لوگ نہ سمجھیں گے کیونکہ وہ  تو بے گری کی چھال ہے۔

                                   سبق
انسان کو دوسروں کا سہارا ڈھونڈنے کی بجائے خود غیروں کا سہارا بننا چاہیے یعنی کسی کا احسان مند ہونے کی بجائے محسن بننے کی کوشش میں رہنا چاہیے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
English translate


A dervishes saw a lame fox and wondered how the girl would eat. Suddenly he saw a lion grab a fox and brought it and ate as much as it ate and the fox ate what was left the next day.Then Allaah provided him with such a provision. The dervishes fell and thought that when Allah Almighty provides sustenance to such creatures in such a wonderful way, then why do I need to work hard. He sat in the house like an ant and said, "Which elephant eats on its own strength?" He sat for many days with great pleasure that provision would come from the unseen, but neither his relative nor any stranger asked him. Only veins, bones and skin remained like wires. When the bonds of patience were broken, a voice came from the mihrab mosque. Instead of growing cunning, the lame fox became a tearing lion. Feed someone like a lion. Don't eat anyone's leftovers. If a person with a body like a lion stays lying like a fox, then a dog is better than othersInstead of trying to recover, try to focus on yourself. Don't become a heterosexual man who eats the earnings of others. God is gracious to the people of grace. These words will not be understood by the less courageous people because they are the bark of helplessness.

                      Lesson             

Man should be the support of others instead of seeking the help of others, that is, he should try to be a benefactor instead of being a benefactor of others.
................................... 

Thanks to reading this blog and please spot me and like this blog and share to all friends and please please please follow me and please subscribe to my YouTube channel
https://youtube.com/channel/UCrl-zXa7Ynq1nf41dJAplQg
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


Monday 17 May 2021

ایک پہلوان کی کہانی




ایک پہلوان نے غربت سے تنگ ہو کر پشت پر مٹی ڈہو کر اپنا پیٹ بھرنا شروع کر دیا, نہایت ہی دل تنگ اور غمگین رہنے لگا ، کہا بڑے بڑے پہلوانوں کو بچھاڑنا اور کہاں یہ دن ، لوگ شہد پیتے مرغی اور بکری کھاتے اور اس بے چارے کی روٹی ساگ پات کو ترستی رہتی. کتے بلیوں کے جسم پر لباس اور یہ بیچارہ ننگا - حسرت سے دعا کرتا کہ ساری زندگی کا رزق اکٹھا ہی مل جائے تو چند دن تو آسانی سے گزر جائیں۔ ایک دن زمین کھود رہا تھا کے تھوڑی کی ہڈی نظر آئیں اور ساتھ موتیوں کا ٹوٹا ہوا ہار پایا جو زبان حال سے کہہ رہا تھا۔ زمانے کی گردش کا گلہ نہ کر یہ تو گہومتا ہی رہتا ہے ۔ پہلوان کو تھوڑی تسلی ہوئی کہ جب انجام ہیں سب کا ایک جیسا ہے تو کیا تخت نشین اور کیا مٹی نشین۔ غمی خوشی ختم ہو جائے گی صرف عمل کی جزا اور نیک نامی رہ جائے گی۔ ملک تاج تخت والے بھی اس دنیا سے گزر گئے اور گدا اور محتاج بھی دنیا سے دھوکا نہ کھا دیکھ اگر تیرے پاس دینے کا سونا نہیں ہے تو سعدی کی نصیحتیں سونے کی ڈلیوں سے کم نہیں ہے ان سچے  موتیوں کو اپنے دامن میں سمیٹ لے دے

                          سبق   

مال دولت تخت و تاج اس پر  گھمنڈ نہیں کرنا چاہیے  خوشحالی اور تنگ دستی انجام کے لحاظ سے برابر ہے   کیونکہ موت سب کو ایک جیسا بنا دے گی 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

English translate

A wrestler, fed up with poverty, began to fill his stomach by pouring mud on his back, his heart became very narrow and sad, he said to scatter the great wrestlers and where is this day, people drink honey, eat chicken and goat and  The fodder bread longs for the greens.  Dogs cling to the bodies of cats and this poor naked man - praying with longing that if he could get the sustenance of his whole life together, then a few days would pass easily.  One day while digging the earth, I saw a small bone and along with it I found a broken necklace of pearls which was speaking in tongues.  It does not care about the rotation of time, it just keeps moving.  The wrestler was a little reassured that when the end is the same for everyone, whether he is enthroned or not.  Sadness and happiness will end, only the reward of action and good name will remain.  Even those who are crowned have passed away from this world and don't be deceived by the ass and the needy. See, if you do not have gold to give, then Saadi's advice is no less than gold nuggets. Wrap these true pearls around your feet.


                 Lesson


 Wealth, throne, and crown should not be boasted of. Prosperity and scarcity are equal in terms of end, because death will make everyone equal.

Thanks for reading this blogg and please like and share and
Follow me and please visit to my YouTube channel please subscribe👇👇👇👇👇👇
https://youtube.com/channel/UCrl-zXa7Ynq1nf41dJAplQg

Sunday 16 May 2021

اک بادشاہ کی اپنے بیٹوں کو نصیحت

 




   اک بادشاہ نے مرنے سے پہلے اپنے


 دونوں بیٹوں کو بلایااور کہا کہ میں نے اپنے ملک کو دو حصوں میں تقسیم کر کے تمہیں دے دیا ہے تاکہ میرے مرنے کے بعد تم خون ریزیا نا شروع کر دو بادشاہ کے مرنے کے بعد جو ایک بیٹا لالچی تھا اس کو خزانہ بھرنے کی فکر پڑ گئی چنانچہ اس نے رعایا سے ظالمانہ ٹیکس وصول کرکے خزانہ بڑھانا شروع کر دیا جب کہ بادشاہ کا دوسرا بیٹا رحم دل اور سخی تھا اس نے ٹیکس کم کر دیے اور خزانہ مستحقین میں بانٹ دیا چنانچہ بادشاہ کا پہلا بیٹا جو ظالم تھا اس کے ظلم سے تنگ آکر لوگ ملک چھوڑنے لگے تاجروں نے دکانیں اور کسانوں نے زمین چھوڑ دی آمدنی جب ختم ہوگئے تو خزانہ خالی ہوگیا ملازمین کی تنخواہیں بھی نہ دے سکا ملک کا انتظام بگڑ گیا اور فوج نے بھی بغاوت کر دی دوسرے علاقے کے بادشاہوں نے جب یہ صورتحال دیکھی تو ملک پر حملہ کرکے قبضہ کرلیا اور اس کو قید کر لیا۔ جب کہ بادشاہ کے دوسرے بیٹے کے حسن سلوک اور رحم دلی کی وجہ سے کسانوں اور زمینداروں کے حوصلے بڑھے، تو تاجروں نے دل کھول کر پیسہ لگایا، تو ویران ضامین آباد ہوگی اور کھیت لہلانے لگے، تاجر خوش ہوئے اور خزانہ بھر گیا لشکر آسودہ ہو کر اس پر جان چھڑکنے لگے۔ چھوٹے چھوٹے علاقوں کے امیر لوگ اس کی حکومت میں شامل ہو کر اس کے ساتھ مل گئے
                 سبق  
عدل و انصاف سے ملک کو استحکام اور ترقی حاصل ہوتی ہے جب کہ ظلم و ستم سے ملک کے بربادی ہو جاتی ہے۔ لالچی شخص اپنے ہاتھوں سے اپنے ملک کی عزت و وقار کی تباہی کے اسباب پیدا کرتا ہے، مزید حاصل کرنے کی بجائے پہلا کیا دہرابھی ضائع کر دیتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
English translate

A king called his two sons before he died and said, "I have divided my land into two parts and given it to you so that you will not shed blood after my death. After the death of the king, a son who was greedy  He became anxious to fill the treasury, so he began to increase the treasury by collecting cruel taxes from his subjects, while the king's second son was merciful and generous. He reduced taxes and distributed the treasury among the deserving.  Fed up with the tyranny of the oppressor, people started leaving the country. Merchants, shops and farmers left the land. When the income ran out, the treasury became empty. They could not even pay the salaries of the employees.  When the kings of the region saw this situation, they invaded and occupied the country and took it prisoner.  When the peasants and landowners were encouraged by the kindness and kindness of the king's second son, the merchants invested generously, the desolate guarantors settled and the fields began to flourish, the merchants rejoiced and the treasury was filled with a comfortable army.  After that, they started killing him.  Wealthy people from small areas joined his government and joined him

 Lesson

 Justice brings stability and development to the country while oppression destroys the country.  The greedy man creates with his own hands the causes of the destruction of the honor and dignity of his country, instead of gaining more, he wastes the first double.

Thanks for reading this blog and please like and share and please follow me
................................... 

Friday 14 May 2021

بہنیں ماں کا روپ ہوتی ہیں

بہنیں ایسی کیوں ہوتی ہیں

 

صبح صبح چائے کی دکان پہ 
میرا دوست میرے پاس آ بیٹھا 
مجھے سلام کیا اس کی آنکھوں میں آنسو تھے 
میرا ہاتھ پکڑا روتے ہوئے بولا فارس میں آج خود کو بہت چھوٹا محسوس کر رہا ہوں
میں حیران تھا اس کی کمر پہ تھپکی دی ارے ایسا کیا ہوا گیا شیر کو


وہ مجھ سے نظریں نہ ملا رہا تھا 
پھر زور زور سے رونے لگا
سب لوگ اس کی طرف دیکھنے لگے میں اس کو چپ کروایا
ارے پاگل سب دیکھ رہے ہیں میرے سینے سے لگ گیا 
روتے ہوئے بولا 
فارس بہنیں ایسی کیوں ہوتی ہیں 
میں سوچ میں گم ۔۔۔کیا  ہو گیا تم کو ایسا کیوں بول۔رہے ہو 


کہنے لگا 
فارس پتا ہے 
بہن کی شادی کو 6 سال ہو گئے ہیں 
میں کبھی اس کے گھر نہیں گیا عید شب رات کبھی بھی میں ابو یا امی جاتے ہیں 
میری بیوی ایک دن مجھے کہنے لگی 
آپ کی بہن جب بھی آتی ہے 
اس کے بچے گھر کا حال بگاڑ کر رکھ دیتے ہیں 
خرچ ڈبل ہو جاتا ہے 
اور تمہاری ماں 
ہم۔سے چھپ چھپا کر کبھی اس کو صابن کی پیٹی دیتی ہے کبھی کپڑے کبھی صرف کے ڈبے 
اور کبھی کبھی تو چاول کا تھیلا بھر دیتی ہے 
اپنی ماں کو بولو یہ ہمارا گھر ہے کوئی خیرات سینٹر نہیں 
فارس مجھے بہت غصہ آیا میں مشکل سے خرچ پورا کر رہا ہوں اور ماں سب کچھ بہن کو دے دیتی ہے 


بہن ایک دن گھر آئی ہوئی تھی اس کے بیٹے نے ٹی وی کا ریموٹ توڑ دیا 
میں ماں سے غصے میں کہہ رہا تھا 
ماں بہن کو بولو یہاں عید پہ آیا کرے بس 
اور یہ جو آپ صابن صرف اور چاول کا تھیلا بھر کر دیتی ہیں نا اس کو بند کریں سب 
ماں چپ رہی 
لیکن بہن نے ساری باتیں سن لی تھیں میری 
بہن کچھ نہ بولی 
4 بج رہے تھے اپنے بچوں کو تیار کیا اور کہنے لگی بھائی مجھے بس سٹاپ تک چھوڑ او 


میں نے جھوٹے منہ کہا رہ لیتی کچھ دن 
لیکن وہ مسکرائی نہیں بھائی بچوں کی چھٹیاں ختم ہونے والی ہیں 
پھر جب ہم دونوں بھائیوں میں زمین کا بٹوارا  ہو رہا تھا تو 


میں نے صاف انکار کیا بھائی میں اپنی زمیں  سے بہن کو حصہ نہیں دوں گا 
بہن سامنے بیٹھی تھی 
وہ خاموش تھی کچھ نہ بولی ماں نے کہا بیٹی کا بھی حق بنتا ہے لیکن میں نے گالی دے کر کہا کچھ بھی ہو جائے میں  بہن کو حصہ نہیں دوں گا 
میری بیوی بھی بہن کو برا بھلا کہنے لگی 
وہ بیچاری خاموش تھی 
 فارس کافی عرصے سے  کام کاج ہے نہیں 


میرے بڑے بیٹے کو ٹی بی ہو گئی 
میرے پاس اس کا علاج کروانے کے پیسے نہیں 
بہت پریشان تھا میں 
قرض بھی لے لیا تھا لاکھ دو 
بھوک سر پہ تھی 
میں بہت پریشان تھا کمرے میں اکیلا بیٹھا تھا شاید رو رہا تھا حالات پہ 
کے اتنے میں بہن گھر آگئی 
میں غصے سے بولا اب یہ آ گئی ہے منحوس
بیوی میرے پاس آئی 


کوئی ضرورت نہیں گوشت یا بریانی پکانے کی اس کے لیئے 
پھر ایک گھنٹے بعد وہ میرے پاس آئی 


بھائی پریشان ہو میں مسکرایا نہیں تو 
بہن نے میرے سر پہ ہاتھ پھیرا بڑی بہن ہوں تمہاری 
گود میں کھیلتے رہے ہو 
اب دیکھو مجھ سے بھی بڑے لگتے ہو 
پھر میرے قریب ہوئی 
اپنے پرس سے سونے کے کنگن نکالے میرے ہاتھ میں رکھے 
آہستہ سے بولی 
پاگل توں اویں پریشان ہوتا ہے 
تیرا بھائی شہر گیا ہوا تھا 
بچے سکول تھے میں سوچا دوڑتے دوڑتے بھائی سے مل آؤں۔ 
یہ کنگن بیچ کر اپنا خرچہ کر 
بیٹے کا علاج کروا 
اور جا اٹھ نائی کی دکان پہ جا مونچھیں  بڑھا رکھی ہے 
شکل تو دیکھ ذرا کیا حالت بنا رکھی تم۔نے 
میں خاموش تھا بہن کی طرف دیکھے جا رہا تھا 
وہ آہستہ سے بولی کسی کو نہ بتانا کنگن کے بارے میں تم۔کو میری قسم  ہے 
میرے ماتھے پہ بوسہ کیا اور ایک ہزار روپیہ مجھے دیا جو سو پچاس کے نوٹ تھے 
شاید اس کی جمع پونجی تھی 


میری جیب میں ڈال۔کر بولی بچوں کو گوشت لا دینا
پریشان نہ ہوا کر 
تیرے بھائی کو تنخواہ ملے گی تو آوں گئ پھر 
جلدی سے اپنا ہاتھ میرے سر پہ رکھا دیکھ اس نے بال سفید ہو گئے 


اب بازار جاو اور مونچھیں  کترا کر آو 
وہ جلدی سے جانے لگی 
 اس کے پیروں کی طرف میں دیکھا ٹوٹی ہوئی جوتی پہنی تھی 
پرانا سا دوپٹہ اوڑھا ہوا تھا جب بھی آتی تھی وہی دوپٹہ اوڑھ کر آتی 
فارس بہن کی اس محبت میں مر گیا تھا 


ہم بھائی کتنے مطلب پرست ہوتے ہیں بہنوں کو پل بھر میں بیگانہ کر دیتے ہیں اور بہنیں 
بھائیوں کا ذرا سا دکھ برداشت نہیں  کر سکتیں 
وہ ہاتھ میں کنگن پکڑے زور زور سے رو رہا تھا
اس کے ساتھ میری آنکھیں بھی نم تھیں


 اپنے گھر میں خدا جانے کتنے دکھ سہہ رہی ہوتی ہیں 
کچھ لمحے بہنوں کے پاس بیٹھ کر حال پوچھ لیا کریں
شاید کے  ان کے چہرے پہ کچھ لمحوں کے لیئے ایک سکون آ جائے، ،،،
 بہنیں ماں کا روپ ہوتی ہیں😢

 Thanks for reading this blogg and please follow me and sher to all farinds thank you very much 

...........................................

Thursday 13 May 2021

سلطان محمود غزنوی ایک دفعہ تلوار اٹھا کر چل پڑے




ﺍﯾﮏ ﺭﺍﺕ ﺳﻠﻄﺎﻥ ﻣﺤﻤﻮﺩ ﻏﺰﻧﻮﯼ ﮐﻮ ﮐﺎﻓﯽ ﮐﻮﺷﺸﻮﮞ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ     
ﺟﺐ ﻧﯿﻨﺪ ﻧﮩﯿﮟ ﺁﺋﯽ ﺗﻮ ﺍﭘﻨﮯ ﻏﻼﻣﻮﮞ ﺳﮯ ﮐﮩﻨﮯ ﻟﮕﮯ ﻟﮕﺘﺎ ہے کہ ﮐﺴﯽ مظلوم ﭘﺮ ﺁﺝ ﮐﻮﺋﯽ ﻇﻠﻢ ہوا ہے۔ ﺗﻢ ﻟﻮﮒ ﮔﻠﯿﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﭘﮭﯿﻞ ﺟﺎﺅ ﺍﻭﺭ ﺍﮔﺮ ﮐﻮﺋﯽ ﻓﺮﯾﺎﺩﯼ ﻧﻈﺮ ﺁﺋﮯ ﺗﻮ ﺍُﺳﮯ ﻣﯿﺮﮮ ﭘﺎﺱ          ﻟﮯ ﺁﺅ۔
ﺗﮭﻮﮌﯼ ﺩﯾﺮ ﺑﻌﺪ ﻭﮦ ﺳﺐ ﻭﺍﭘﺲ ﺁ ﮐﺮ ﮐﮩﻨﮯ ﻟﮕﮯ : " ﺳﻠﻄﺎﻥ، ہمیں ﮐﻮﺋﯽ ﺑﮭﯽ ﻓﺮﯾﺎﺩﯼ ﻧﮩﯿﮟ ﻣﻼ، ﺁﭖ ﺁﺭﺍﻡ ﺳﮯ ﺳﻮ ﺟﺎﺋﯿﮟ۔ "
ﺳﻠﻄﺎﻥ ﮐﻮ ﺟﺐ ﭘﮭﺮ ﺑﮭﯽ ﻧﯿﻨﺪ ﻧﮩﯿﮟ ﺁﺋﯽ ﺗﻮ ﻭﮦ ﮐﭙﮍﮮ ﺑﺪﻝ ﮐﺮ ﺧﻮﺩ ﻣﺤﻞ ﺳﮯ ﺑﺎﮬﺮ ﻧﮑﻼ۔ ﻣﺤﻞ ﮐﮯ ﭘﭽﮭﻮﺍﮌﮮ ﻣﯿﮟ ﺣﺮﻡ ﺳﺮﺍ ﮐﮯ ﻧﺰﺩﯾﮏ ﺍُنہیں ﮐﺴﯽ ﮐﯽ ﻓﺮﯾﺎﺩ ﺳﻨﺎﺋﯽ ﺩﯼ : " ﺍﮮ اللہ ! ﺳﻠﻄﺎﻥ ﻣﺤﻤﻮﺩ ﺍﭘﻨﮯ
ﻣﺼﺎﺣﺒﻮﮞ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﻣﺤﻞ ﻣﯿﮟ ﻋﯿﺶ ﻭ ﻋﺸﺮﺕ ﮐﯽ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﮔﺰﺍﺭ ﺭہا ﮬﮯ ﺍﻭﺭ ﻣﺤﻞ ﮐﮯ ﻋﻘﺐ ﻣﯿﮟ ﻣﺠﮫ ﭘﺮ یہ ﻇﻠﻢ ﺗﻮﮌﺍ ﺟﺎ ﺭہا ہے۔ "
ﺳﻠﻄﺎﻥ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ : "ﮐﯿﺎ ﺑﺎﺕ ﮐﺮرہے ہو؟ ﻣﯿﮟ ﻣﺤﻤﻮﺩ ہوﮞ ﺍﻭﺭ ﺗﻤﮩﺎﺭﯼ ﻓﺮﯾﺎﺩﺭﺳﯽ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﺁﯾﺎ ﮬﻮﮞ۔ ﻣﺠﮭﮯ ﺑﺘﺎﺅ ﮐﯿﺎ ﻇﻠﻢ ﮬﻮﺍ ﮬﮯ
ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﺳﺎﺗﮫ؟ "
" ﺁﭖ ﮐﮯ ﺧﻮﺍﺹ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﺍﯾﮏ ﺷﺨﺺ ﺟﺲ ﮐﺎ ﻧﺎﻡ ﻣﯿﮟ ﻧﮩﯿﮟ ﺟﺎﻧﺘﺎ ہر ﺭﺍﺕ ﻣﯿﺮﮮ ﮔﮭﺮ ﺁﺗﺎ ﮬﮯ ﺍﻭﺭ ﻣﯿﺮﯼ ﺑﯿﻮﯼ ﭘﺮ ﻇﻠﻢ ﻭ ﺗﺸﺪّﺩ ﮐﺮﺗﺎ ہے۔ "
"ﺍِﺱ ﻭﻗﺖ ﻭﮦ ﮐﮩﺎﮞ ﮬﮯ؟"
" ﺷﺎﯾﺪ ﺍﺏ ﭼﻼ ﮔﯿﺎ ﮬﻮ۔"
" ﺩﻭﺑﺎﺭﮦ ﺟﺐ ﻭﮦ ﺁﺋﮯ ﺗﻮ ﻓﻮﺭﺍً ﺁ ﮐﺮ ﻣﺠﮭﮯ ﺍﻃﻼﻉ ﮐﺮ ﺩﻭ۔ " ﭘﮭﺮ ﺳﻠﻄﺎﻥ ﻧﮯ ﻣﺤﻞ ﮐﮯ ﺩﺭﺑﺎﻥ ﮐﻮ ﻭﮦ ﺷﺨﺺ ﺩﮐﮭﺎﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﮐﮩﺎ کہ ﺟﺐ بھی یہ دربار ﺁﺋﮯ ﺍﺳﮯ ﺳﯿﺪﮬﺎ ﻣﯿﺮﮮ ﭘﺎﺱ ﭘﮩﻨﭽﺎ ﺩﻭ۔ ﺍﮔﺮ ﻣﯿﮟ ﻧﻤﺎﺯ ﮐﯽﺣﺎﻟﺖ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﮬﻮﮞ ﺗﻮ ﭘﺮﻭﺍﮦ ﻣﺖ ﮐﺮﻭ۔
ﺍﮔﻠﯽ ﺭﺍﺕ ﻭﮦ ﺷﺨﺺ ﺳﻠﻄﺎﻥ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﺁﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﺑﺘﺎﯾﺎ کہ ﻭﮦ ﺷﺨﺺ ﺍﺱ ﻭﻗﺖ ﺍﺱ ﮐﮯ ﮔﮭﺮ ﻣﯿﮟ ہے۔
ﺳﻠﻄﺎﻥ ﺍﺳﯽ ﻭﻗﺖ ﺗﻠﻮﺍﺭ ہاتھ ﻣﯿﮟ ﻟﺌﮯ ﺍﺱ ﺷﺨﺺ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﭼﻞ ﭘﮍﺍ۔ ﺟﺐ ﺍﺱ ﮐﮯ ﮔﮭﺮ ﮐﮯ ﻗﺮﯾﺐ ﭘﮩﻨﭽﺎ ﺗﻮ ﺍﺱ ﺳﮯ ﮐﮩﺎ کہ ﮔﮭﺮ کے ﺳﺎﺭﮮ ﭼﺮﺍﻍ ﺑﺠﮭﺎ ﺩﻭ۔ ﭘﮭﺮ ﺍﻧﺪﮬﯿﺮﮮ ﻣﯿﮟ ﮬﯽ ﺍﺱ ﮐﮯ ﮔﮭﺮ ﻣﯿﮟ ﮔﮭﺲ ﮐﺮ ﺍﺱ ﺷﺨﺺ ﮐﺎ ﺳﺮ ﺗﻦ ﺳﮯ ﺟﺪﺍ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ۔
ﭘﮭﺮ ﺳﻠﻄﺎﻥ ﻧﮯ ﺣﮑﻢ ﺩﯾﺎ کہ ﭼﺮﺍﻍ ﺭﻭﺷﻦ ﮐﺮ ﺩﻭ۔ ﺍﺱ ﺷﺨﺺ ﮐﺎ ﭼﮩﺮﮦ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﺳﺠﺪﮮ ﻣﯿﮟ ﮔﺮ ﭘﮍﺍ۔
ﭘﮭﺮ ﮔﮭﺮ ﮐﮯ ﻣﺎﻟﮏ ﺳﮯ ﮐﮩﺎ : " ﺍﮔﺮ ﮐﭽﮫ ﮐﮭﺎﻧﮯ ﮐﻮ ﮬﮯ ﺗﻮ ﻟﮯ ﺁﺅ ﻣﺠﮭﮯ ﺑﮩﺖ ﺳﺨﺖ ﺑﮭﻮﮎ ﻟﮕﯽ ﮬﮯ۔ "
" ﺁﭖ ﺟﯿﺴﺎ ﺳﻠﻄﺎﻥ ﻣﺠﮫ ﻏﺮﯾﺐ ﮐﮯ ﮔﮭﺮ ﮐﺎ ﮐﮭﺎﻧﺎ ﮐﮭﺎﺋﮯ ﮔﺎ؟"
" ﺟﻮ ﮐﭽﮫ ﺑﮭﯽ ہے، ﻟﮯ ﺁﺅ "!
ﻭﮦ ﺷﺨﺺ ﺍﯾﮏ ﺳﻮﮐﮭﯽ ﺭﻭﭨﯽ ﺍﭨﮭﺎ ﻻﯾﺎ ﺟﺴﮯ ﺳﻠﻄﺎﻥ ﻧﮯ ﺑﮍﯼ ﺭﻏﺒﺖ ﺳﮯ ﮐﮭﺎﯾﺎ۔ ﻭﮦ ﺷﺨﺺ ﺳﻠﻄﺎﻥ ﺳﮯ ﭘﻮﭼﮭﻨﮯ ﻟﮕﺎ کہ ﭼﺮﺍﻏﻮﮞﮐﻮ ﺑﺠﮭﺎنا، ﺳﺠﺪﮦ ﮐﺮﻧﮯ ﺍﻭﺭ ﺭﻭﭨﯽ ﻃﻠﺐ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﮯ ﭘﯿﭽﮭﮯ ﺁﺧﺮ ﮐﯿﺎ
ﻣﺎﺟﺮﺍ ﮬﮯ؟ سلطان نے فرمایا:
"ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺟﺐ ﺗﻤﮩﺎﺭﯼ ﺩﺍﺳﺘﺎﻥ ﺳﻨﯽ ﺗﻮ ﺳﻮﭼﺎ کہ ﻣﯿﺮﯼ ﺳﻠﻄﻨﺖ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﺴﺎ ﻇﻠﻢ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﯽ ہمّت ﺻﺮﻑ ﻣﯿﺮﮮ ﮐﺴﯽ ﺑﯿﭩﮯ ﮐﻮ ہوﺳﮑﺘﯽ ﮬﮯ۔ ﺍﻧﺪﮬﯿﺮﺍ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﻮ ﺍﺱ ﻟﺌﮯ ﮐﮩﺎ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﭘﺪﺭﺍنہ ﺷﻔﻘﺖ ﻣﯿﺮﮮ ﺍﻧﺼﺎﻑ ﮐﮯ ﺭﺍﺳﺘﮯ ﻣﯿﮟ ﺣﺎﺋﻞ نہ ہوجائے۔ ﭼﺮﺍﻍ ﺟﻠﻨﮯ ﭘﺮ ﺟﺐ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺩﯾﮑﮭﺎ کہ ﻭﮦ ﻣﯿﺮﺍ ﺑﯿﭩﺎ ﻧﮩﯿﮟ ہے ﺗﻮ ﻣﯿﮟ ﺳﺠﺪۂ ﺷُﮑﺮ ﺑﺠﺎﻻﯾﺎ۔ ﮐﮭﺎﻧﺎ ﺍﺱ ﻟﺌﮯ ﻣﺎﻧﮕﺎ کہ ﺟﺐ ﺳﮯ ﻣﺠﮭﮯ ﺗﻤﮩﺎﺭﯼ ﻣﺼﯿﺒﺖ ﮐﺎ ﻋﻠﻢ ہوا، ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍللہ ﮐﮯ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﻗﺴﻢ ﮐﮭﺎﺋﯽ ﺗﮭﯽ کہ ﺟﺐ ﺗﮏ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﺍﻧﺼﺎﻑ ﻧﮩﯿﮟ ﻣﻞ ﺟﺎﺗﺎ ﻣﯿﺮﮮ ﺍﻭﭘﺮ ﺭﻭﭨﯽ ﺣﺮﺍﻡ ہے۔ ﺍُﺱ ﻭﻗﺖ
ﺳﮯ ﺍﺏ ﺗﮏ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ نہ ﮐﭽﮫ ﮐﮭﺎﯾﺎ ﺗﮭﺎ نہ
پانی ﭘﯿﺎ ﺗﮭﺎ۔اور آج کل کے حکمران، میں اس سے ذیادہ کچھ نھیں لکھونگا
اگر یہ لطیفہ ہوتا تو ہر کوئی شئیر کرتا آج دیکھتا ہوں کہ یہ پوسٹ کون کون شئیر کرتا ہے

🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹....................................................................




Sunday 2 May 2021

                    بسم الله الرحمن الرحيم